رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای کے کلام سے کچھ دروس
بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ہفتہ وار آنلائن جریدے 'خط حزب اللہ' نے اپنے اداریے بعنوان "اس کو سب جان لیں" میں لکھا: "اس کو سب جان لیں"؛ یہ وہ فقرہ ہے جس کو ـ امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے کئی سالوں سے عوام اور سرکاری اہلکاروں کو ایک انتہائی اہم اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لئے ـ استعمال کیا ہے۔ ان حساس مواقع میں سے ایک ـ جب آپ نے یہ فقرہ بار بار استعمال کیا، ـ صہیونی ریاست کی 12 روزہ دہشت گردانہ اور بزدلانہ جنگ اور اس کے بعد کے ایام ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے اس دوران عوام اور عہدیداروں کی توجہ کس اہم مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے؟
ایرانی قوم کے ساتھ امریکی دشمنی کا راز
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے 12 روزہ جنگ رکنے کے ایک دن بعد اپنے تیسرے ٹیلی ویژن پیغام میں فرمایا کہ ایرانی قوم اور عہدیداران امریکہ اور مغرب کی دشمنی کی وجہ جان لیں۔ آپ نے ایک انتہائی اہم بیان میں فرمایا: "امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایران کو ہتھیار ڈالنا چاہئیں۔۔۔ اس بات نے ایک حقیقت کو عیاں کیا؛ امریکی انقلاب کے آغاز سے ہی اسلامی ایران سے لڑتا جھگڑتا رہا ہے، ہر بار ایک بہانہ ہوتا ہے: کبھی انسانی حقوق، کبھی جمہوریت کا دفاع، کبھی خواتین کے حقوق، کبھی یورینیم کی افزودگی، کبھی جوہری مسئلہ، کبھی میزائل سازی کا معاملہ؛ وہ مختلف بہانے لاتے ہیں، لیکن معاملے کی حقیقت ایک سے زیادہ نہیں ہے اور وہ ہے 'ایران کا تسلیم ہونا [اور ہتھیار ڈالنا'۔۔۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے! ایرانی قوم جان لے، امریکہ کی مخالفت کی [وجہ] یہی ہے۔" (26 جون 2025)
آپ نے بعد کے دنوں میں بھی اسی تعبیر "سب جان لیں" کے ساتھ اس نکتے کی وضاحت کی جو ایرانی قوم کی جدوجہد کی حقیقت میں تحریف سے متعلق آپ کی فکرمندی کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "یہ بات سب جان لیں۔۔۔ ہم نے جنگ کی خوش آمدید نہیں کہا۔" (16 جولائی 2025)
آٹھ سالہ اور 12 روزہ مسلط کردہ جنگوں کی یکسان نوعیت
12 روزہ مسلط کردہ جنگ کی نوعیت وہی ہے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کی نوعیت ہے، کیونکہ دشمن کا مقصد شروع سے ایک ہی رہا ہے:
"بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو دشمنی کی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جھگڑا کیا ہے، ہم نے مسلسل ان کی آنکھوں میں انگلی ڈالی ہے۔" (14 جون 2016) لیکن امریکہ کی دشمنیوں کے تاریخ اور ایرانی قوم کے تجربوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ایران کا امریکہ سے کوئی جھگڑا نہیں تھا تب بھی وہ ایران کے ساتھ دشمنی اور اس کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا۔
ان ہی تلخ تاریخی تجربوں میں سے ایک جو امریکہ کی ایرانی قوم سے دشمنی کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، یہ تھا کہ "انقلاب کی کامیابی کے پہلے مہینوں میں، امریکی سینیٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک سخت قانون اور قرارداد کا اجراء کرکے عملی طور پر دشمنی کا آغاز کیا؛ یہ اس وقت ہؤا جب امریکی سفارت خانہ ایران میں ابھی تک کھلا ہؤا تھا!" (3 نومبر 2015) ایک اور واضح مثال ڈاکٹر مصدق کی قومی تحریک تھی جو اگرچہ ایک مذہبی اور انقلابی تحریک نہیں تھی اور صرف ملک کی آزادی کے لئے تھی، لیکن [ان کی حکومت] امریکیوں کے [زیر سرپرستی ہونے والی] بغاوت کے ذریعے گرادی گئی۔ ان ہی تجربوں میں سے ایک آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ ہے۔ "شروع دن سے ہی تمام قرائن اور شواہد اس بات کی نشاندہی کررہے تھے کہ عراق کے پیچھے استکبار (امریکہ) موجود ہے۔" (27 ستمبر 1991)
"امریکہ اور اس کے کارندے انیس مہینوں تک [انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے] ہر ممکن کوشش کے بعد بھی جب اسلامی جمہوریہ کو شکست نہ دے سکے - یہاں تک کہ فوجی حملہ بھی کیا - تو انہوں نے سوچا کہ ہم ایران کو ایک جبری اور ناخواستہ جنگ میں گھسیٹیں گے، عراق کو اکسائیں گے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ شروع کرے۔۔۔ [چنانچہ] وہ صدام حسین کے پاس گئے جو ایک احمق، طاقت کا رسیلا، مغرور اور بدبخت شخص تھا۔" (26 ستمبر 1980)
اس دور میں امریکہ کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کا سبب بھی یہی تھا۔ انہوں نے "جنگ چھیڑی تاکہ اسلامی نظام کو ختم کر سکیں یا اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر سکیں۔۔۔ اگر ایران امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا تو جنگ جلد ختم ہو جاتی۔ البتہ امریکہ کے تسلط کی مصیبت جنگ کی مصیبت سے سو گنا زیادہ شدید [اور ناقابل برداشت] ہے۔" (27 ستمبر 1991) "المختصر یہ کہ 'اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے امریکی تسلط کے ہاتھ کو ملک سے کاٹ دیا؛ سارا معاملہ یہی ہے۔" (9 مئی 2018) "ایرانی قوم سے ان کی دشمنی بھی 'اسلام کی طرفداری اور نظام اسلامی کے ساتھ کھڑے رہنے اور اس کے لئے جانفشانی اس کا دفاع کرنے کی وجہ سے ہے۔" (9 جنوری 2003) اور "امریکیوں اور ان کے اتحادیوں اور ساتھیوں کی طرف سے جو بھی اقدام کیا جاتا ہے، وہ ایرانی قوم کو جھکا دینے کے لئے ہوتا ہے، ایرانی قوم کی توہین کے لئے ہوتا ہے۔" (8 فروری 2015)
اگرچہ بیرونی اور اندرونی دشمن اور منافقین امریکہ کی ایرانی قوم سے دشمنی کی وجہ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ حقیقت کبھی بھی مسخ نہیں ہو سکتی۔"
انبیاء پر مسلط کی گئی جنگوں کی وجہ
تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے ہم واضح طور پر جان سکتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) - خاص طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) - کے ساتھ دشمنی اور ان پر جنگیں مسلط کرنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ حکومت نبویہ کے دور میں، "وہ تمام لوگ جنہوں نے نبی(ص) کے خلاف متحدہ محاذ بنایا، وہ آپ(ص) کے پیغام توحید، آپ(ص) کے پیغام عدل اور آپ(ص) کے مکتب کی تعلیمات کے دشمن تھے۔" (20 مارچ 2008)
اسلامی جمہوریہ کے ساتھ دشمنی کی وجہ بھی وہی ہے جو انبیائے توحید کے ساتھ دشمنی کی وجہ تھی: "بعض لوگ کہتے ہیں 'حضور، دشمنی پیدا نہ کریں'؛ نہیں، ہم دشمن پیدا نہیں کرتے؛ ہم نبی کی بات، خدا کی بات اور توحید کی بات زبان پر لاتے ہیں اور یہی بات خود کچھ دشمن پیدا کر ہی دیتی ہے۔ دشمن، توحیدی تحریک معرض وجود میں لانے کی وجہ سے دشمن بن جاتا ہے۔ اس کی دشمنی ختم ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی تحریک سے ہاتھ کھینچ لیں اور اسی چیز کی طرف لوٹ جائیں جو وہ چاہتے ہیں، یعنی طاغوت کی بندگی، طاغوت کی پیروی اور اس جیسی چیزیں؛ امریکہ ہم سے یہی توقع رکھتا ہے۔" (3 اپریل 2019)
جب ہم کہتے ہیں کہ "انقلاب [اسلامی] نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت کا تسلسل ہے" (3 اپریل 2019) اس کا مطلب ہے کہ عوام کا قیام "جہاں مذہبی پہلو رکھتا ہے، وہیں امریکہ-مخالف پہلو بھی رکھتا ہے۔" (8 جنوری 2021) کیونکہ "امریکہ ہمارے ملک میں فرعونیت کر رہا تھا۔۔۔ زمانے کے موسیٰ آئے، اس فرعون اور اس کے پیروکاروں کے تخت و بخت کو الٹ دیا اور ختم کر دیا۔۔۔ اور اس قوم کے ذریعے امریکہ کو اس ملک سے نکال باہر کیا۔" (9 ستمبر 2015)
جنگ کے وقوع سے بچاؤ کا راستہ
اب اہم سوال یہ ہے کہ جنگ کے وقوع کو کیسے روکا جائے؟ کمزور اور بزدل لوگ مسلط کردہ جنگ سے بچنے کے لئے سازباز کا راستہ تجویز کرتے ہیں۔ یہ گروہ، اللہ کے وعدوں کے ساتھ ساتھ متعدد تاریخی تجربات کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ "مسلط کردہ جنگ اس لئے ہوئی کہ دشمن نے ہم میں کمزوری محسوس کی۔ اگر بعثی دشمن اور اس کے محرکین مطمئن نہ ہوتے کہ چند دنوں میں تہران پہنچ جائیں گے - وہ ایسا ہی سوچتے تھے - تو یہ جنگ نہ ہوتی۔۔۔ آپ کی کمزوری کا احساس دشمن کو آپ پر حملے کی ترغیب دیتا ہے؛ یہ ایک عام قاعدہ ہے۔" (6 مارچ 2017)
لہٰذا، دشمنوں کی طرف سے ایرانی قوم پر مسلط کی جانے والی جنگ سے بچاؤ کا واحد راستہ "مقاومت [مزاحمت، مقابلہ] اور استقامت" ہے۔ "سب کو جان لینا چاہئے۔۔۔ ایرانی قوم کسی بھی میدان میں کمزور فریق کے طور پر نہیں ابھرے گی۔" (16 جولائی 2025) لہٰذا "مقدس دفاع نے ایرانی قوم کے لئے ایک اصول ثابت کر دیا اور وہ اصول یہ ہے کہ ملک کی حفاظت اور دشمن کے مداخلت سے روک تھام (تسدید یا Deterrence) تسلیم کے ذریعے نہیں بلکہ مقاومت (Resistance) کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔ یہ احساس، کہ مقاومت کرنی چاہئے، سکون و اطمینان اور داخلی خود اعتمادی کا باعث بنا۔۔۔ اور اس نے دشمن کو سکھایا کہ وہ اپنے حساب کتاب [اور اندازوں ـ تخمینوں] میں ایران کی داخلی طاقت کو شامل کر دے، ایران کی مقاومت کو شامل کر دے۔" (21 ستمبر 2022)
یہ مقاومت اور استقامت صرف اتحاد اور یکجہتی کے سائے میں ہی قائم ہو پائے گی۔ اسلامی معاشرہ تب ہی مقاومت کر سکتا ہے اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے جب وہ اپنے اتحاد اور یکجہتی کو مکمل طور پر برقرار رکھے؛ لہٰذا دشمن زوردار تشہیری مہم چلاتا ہے تاکہ مؤمنین میں حق اور صبر کی تلقین کے رشتے کو منقطع کر دے؛۔۔۔ جس سے انسان تنہائی محسوس کرتے ہیں، مایوسی محسوس کرتے ہیں اور ارادے کمزور ہو جاتے ہیں، امیدیں ماند پڑ جاتی ہیں۔" (11 مارچ 2012)
لہٰذا، جیسا کہ مقدس دفاع کے دور میں "جنگ کا انتظام عوام نے چلایا، عوام میدان میں موجود تھے" (12 اکتوبر 2011)، "مومن اور انقلابی ایرانی قوم نے اپنے اتحاد و استقامت سے صدامی ریاست کی جارحانہ جنگ کو، ـ جس کو امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ سوویت یونین اور سابق مشرقی بلاک کی طرف سے فوجی، معلوماتی اور سیاسی حمایت حاصل تھی، ـ ناکام بنا دیا اور دشمن کو سرحد پار دھکیل دیا" (20 اپریل 2003)، 12 روزہ جنگ کے دوران بھی عوام نے ہی اہم کردار ادا کیا۔ اس جنگ میں "ایرانی قوم نے ثابت کیا کہ وہ پر وقار بھی ہے، بہادر بھی ہے اور وقت شناس بھی۔" (18 جون 2025)
لیکن 'سب جان لیں' کہ "انقلاب ایک مستمر [جاری ساری اور مسلسل] عمل ہے۔۔۔ ایک پائیدار اور دائمی حقیقت ہے۔۔۔ اور کبھی ختم نہیں ہوتا" (16 ستمبر 2015) اور ایرانی قوم کی "امریکہ مخالف" جدوجہد طاغوت پر مکمل غلبہ حاصل ہونے تک جاری رہے گی اور "ایرانی قوم ہتھیار ڈالنے والی نہیں ہے" (18 جون 2025) اور "سب لوگ جان لیں۔۔۔ ایرانی قوم یقینی طور پر کامیاب ہوگی" (16 جولائی 2025)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ